Nov ۲۱, ۲۰۲۵ ۱۷:۳۲ Asia/Tehran
  • مشرق وسطی کے بدلتے حالات ، بن سلمان امریکہ میں کیا تلاش کر رہے ہیں ؟

"شہزادہ بن سلمان کا پانچ سال بعد امریکا کا سفر اور ٹرمپ سے ملاقات ایران اور خطے کے لیے ایک اہم مسئلہ ہے۔ دونوں فریق ایک دوسرے سے زیادہ سے زیادہ توقعات رکھتے ہيںں جنہں پورا کرنا ہر ایک کے لیے نہایت مشکل ہے۔"

سحرنیوز/عالم اسلام: ٹرمپ کی ترجیح  یہ ہے کہ سعودی عرب امریکہ میں سرمایہ کاری کرے ۔  پہلے سرمایہ کاری کی رقم 600 ارب ڈالر تھی  لیکن اب بن سلمان کا کہنا ہے کہ اسے ایک ہزار ارب ڈالر تک پہنچایا جائے گا حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ کے علاقائی دورے کی پہلے چھے مہینے  میں سعودی عرب کے  وعدوں کا بہت کم حصہ پورا ہوا ہے۔

در حقیقت اس دوران سعودی عرب کی جانب سے  امریکہ میں 10 ارب ڈالر سے بھی کم کی سرمایہ کاری ہوئی ہے۔ لہذا بن سلمان جو کچھ کہہ رہے  ہیں وہ حقیقت سے زیادہ ایک وعدہ ہے۔

 ٹرمپ کی دوسری ترجیح سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات قائم کرانا ہے۔ بن سلمان پر اس کا شدید دباؤ ہے اور انہوں نے اس دباؤ کو کم کرنے کے لئے دو ریاستی راہ حل کے دعوے کا سہارا لیا ہے تاہم یہ واضح نہیں کہ پس پردہ کیا چل رہا ہے۔ لہذا سعودی حکام کے  بیانات پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے اور یہ امکان بہت زیادہ ہے کہ  اسرائیل کے ساتھ تعلقات  معمول پر لانے کا عمل اس وقت بھی جاری  ہو۔

 

 ٹرمپ کی  تیسری خواہش اور ترجیح تیل کا معاملہ ہے اور وہ چاہتے ہيں کہ تیل کی قیمت   کم ترین سطح پر قائم رہے اور  اس کے لیے سعودی عرب کی براہ راست مدد درکار ہے۔ 

اس کے برعکس، بن سلمان بھی دو اہم  مقاصد کی تکمیل کی راہ تلاش کر رہے ہیں ۔ ان کی ترجیح نیٹو کے ماڈل پر امریکہ کے ساتھ دفاعی معاہدہ ہے۔ یہ سعودی عرب کی پرانی خواہش ہے جو بائیڈن کے دور میں نمایاں طور پر  نظر آئی۔ 7 اکتوبر کے واقعات کی وجہ سے  یہ پورا عمل ہی موخر ہو گیا اور خطے میں نیٹو اور امریکہ  کی موجودگی مشکل نظر آنے لگی تھی ۔

 ایف 35 کی درخواست بھی اسی دفاعی فریم ورک کے تحت ہے۔ البتہ ہم جانتے ہیں کہ امریکہ کبھی بھی اسرائیل کی سلامتی کو کسی دوسرے فریق کے لیے قربان نہیں کرے گا۔ لہذا اس نے  سعودی عرب کو جنگی طیارے فروخت کرنے کا وعدہ تو کیا ہے لیکن ٹرمپ نے بن سلمان نے جن ساز و سامان کا وعدہ کیا ہے وہ  کم سے کم اگلے پانچ برسوں میں سعودی عرب کو ملیں گے اور اس وقت تک  اسرائیل کے پاس  اس سے بہتر ٹکنالوجی والی چیزيں پہنچا دی جائيں گی تاکہ اسے کسی قسم کی تشویش نہ ہو۔

 

البته ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ بن سلمان کو موجودہ صورت حال میں اپنے والد  سے خود تک  اقتدار کی منتقلی کے موقع پر اپنی حکومت کی سلامتی اور  استحکام کو یقینی بنانے کی ضرورت ہےاور  ان کی نظر میں یہ کام صرف امریکہ کے تعاون اور اس کی مدد سے ہی ممکن ہوگا۔ درحقیقت بن سلمان کا خیال ہے کہ  سعودی عرب کا بادشاہ بننے کے لیے انہيں ٹرمپ جیسے شخص کی ضرورت ہے جو سو فیصد ان کا حامی ہو۔ 

 

سعودی عرب کا دوسرا مسئلہ امریکہ کے ساتھ معاشی اور ترقیاتی تعاون ہے۔ بن سلمان کجا وژن 2030 فی الحال ٹھہرا ہوا ہے ۔ بن سلمان کو اپنے ملک کو آگے بڑھانے کے لیے بیرونی عوامل کو فعال کرنا پڑ رہا ہے۔ نیوم کی بلند پروازیوں نے مضحکہ خیز صورت حال  اختیار کر لی ہے جس کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہی تعمیر ہوا ہے۔ اس طرح کی خیالی ترقی کے لیے پیسے کی ضرورت ہے اور بن سلمان تیل کی کم قیمتوں کی وجہ سے اسے پورا کرنے میں مشکلات کا شکار ہیں۔ اب جبکہ انہوں نے ٹرمپ سے  ایک ہزار ارب ڈالر کا وعدہ کیا ہے تو مسئلہ اور سنجیدہ  ہو گیا ہے۔

ان سب کے باوجود بن سلمان امریکی  ٹکنالوجی اور سیاسی رابطوں کے ذریعے  وہاں کی ٹیکنالوجی درآمد کرنے کی کوشش کر رہے ہيں ۔ 

نیوم فی الحال تو ایک تخیلاتی شہر 

بن سلمان کی  اس سلسلے میں آخری خواہش  خطے میں اپنا کردار بڑھانے کی کوشش ہے۔ لبنان اور شام میں کردار ادا کرنا گزشتہ ایک سال سے  ان کی سرگرمیوں کا حصہ رہی ہیں۔ اب انہوں  نے ایران سے درخواست کی ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ  ایران کے مسائل میں ثالث کا کردار ادا کرنا چاہتے ہيں  لیکن ایران نے  انکار کر دیا ہے۔

 خطے میں سعودی کردار میں کوئی بھی اضافہ شاید  ایران کے لیے نقصان دہ ہو۔ جیسا کہ سعودی عرب نے لبنان کے معاملے میں ایران اور حزب اللہ پر  شدید  دباؤ ڈالا ایران  اور امریکہ کے معاملے میں  ہمیں کسی ثالث کی ضرورت نہیں ہے۔ امریکہ کو ایران کو غیر مسلح کرنے کے خیال سے باہر نکلنا چاہیے تاکہ بات چیت ممکن ہو سکے۔

(نور نیوز سے ماخوذ) 

 

 

ٹیگس