Oct ۰۱, ۲۰۲۵ ۱۷:۰۱ Asia/Tehran
  • عرب اور اسلامی ممالک کی سب سے بڑی تذلیل، ٹرمپ اور نتن یاہو کی طرف سے حاکم کا تعین، پاکستانی عوام میں بڑھی بے چینی

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غزہ میں جنگ بندی اور قیام امن کے لیے پیش کئے گئے 20 نکاتی منصوبے کی پاکستانی حکومت کی حمایت کے بعد ملک بھر میں یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ کیا پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرنے جا رہا ہے؟ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ غزہ امن منصوبے کو قبول کرنے کے بعد پاکستان پر ابراہم اکورڈ کے تحت اسرائیل کو بطور ریاست تسلیم کرنے کے لیے دباؤ بڑھ جائے گا۔

سحرنیوز/پاکستان: امریکی تجزیہ کار مائیکل کوگل مین کے مطابق ’فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر ابراہم اکارڈز میں شمولیت پاکستان کی پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی ہوگی اور عوام کی جانب سے غالباً اسے مسترد کر دیا جائے گا۔ مائیکل کے مطابق، اس دباؤ کے بڑھنے کے تین اہم اسباب ہو سکتے ہیں، جن میں پاکستان اور سعودی عرب کا حالیہ دفاعی معاہدہ، پاک۔امریکا تعلقات کی نئے سرے سے بحالی اور پاکستان کی جانب سے ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کی حمایت شامل ہیں۔

واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2020 میں اپنی پہلی مدتِ صدارت کے دوران ایک معاہدہ تشکیل دیا تھا جسے ”ابراہم اکورڈ“ کا نام دیا گیا۔ اس معاہدے کے تحت متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل کو تسلیم کیا تھا۔ بعد ازاں مراکش اور سوڈان بھی اس عمل میں شامل ہوئے۔

اب سوال یہ ہے کہ اگر ابراہم اکورڈ کا دوسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے تو کیا پاکستان پر بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے دباؤ بڑھ سکتا ہے؟ پاکستان میں اس حوالے سے رائے تقسیم ہے۔ سینیٹر مشاہد حسین سید نے ٹرمپ پلان میں کچھ مثبت نکات تسلیم کیے، جیسے فلسطینی نسل کشی کے خاتمے، غزہ میں اسرائیلی قبضے سے انکار، انسانی امداد کی فراہمی اور فلسطینی ریاست کے اصولی حق کو تسلیم کرنا۔ تاہم انہوں نے اس منصوبے کی کمزوریاں بھی اجاگر کیں، جن میں فلسطین کو دو حصوں میں بانٹ دینا، ٹونی بلیئر جیسے متنازع شخص کی شمولیت اور فلسطینی قیادت کو نظرانداز کرنا شامل ہیں۔

مشاہد حسین کے مطابق اگر اس منصوبے میں ایک متحد فلسطینی ریاست کے قیام کی ٹائم لائن شامل نہ کی گئی تو اسے کامیاب نہیں کہا جا سکتا۔

دوسری طرف سماجی کارکن جبران ناصر نے پاکستان اور دیگر مسلم ممالک کی جانب سے ٹرمپ منصوبے کا خیرمقدم کرنے کو ’’اسرائیل کے جنگی جرائم پر مہرِ تصدیق‘‘ قرار دیا۔ ان کے مطابق غزہ میں قحط، قتل عام اور تباہی کے باوجود اسرائیل کو عالمی سطح پر جوابدہ نہیں بنایا جا رہا، بلکہ اسے مزید تقویت دی جا رہی ہے۔

پاکستان کے سابق سفیر عبدالباسط نے ایکس پر ٹرمپ کے غزہ منصوبے پر تمام مسلمان ممالک کی جانب سے جاری مشترکہ بیان کو ”سرینڈر“ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’مسلم دنیا نے مکمل طور پر ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ ٹرمپ کے ذریعے پیش کئے گئے منصوبے میں فلسطینی ریاست کا ذکر بھی نہیں کیا گیا ہے جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہو۔ انہوں نے لکھا کہ ’پاکستان اگر فلسطین کی ریاست کے قیام سے قبل ابراہیم اکارڈ کو تسلیم کرتا ہے تو یہ بہت بڑی غلطی ہو گی۔

اس دوران سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ عرب اور اسلامی ممالک کی سب سے بڑی تذلیل کی بات یہ ہے کہ ٹرمپ اور نتن یاہو کی طرف سے ان کے سر پر حاکم کا تعین کیا جا رہا ہے۔  مبصرین کے مطابق پاکستان پر ابراہم اکارڈز کے دوسرے مرحلے میں شامل ہونے کا دباؤ یقینی طور پر بڑھ سکتا ہے، خاص طور پر پاک۔سعودی دفاعی معاہدے اور امریکا کے ساتھ تعلقات کی بہتری کے بعد۔ عالمی طاقتیں پاکستان کو اس سمت دھکیلنے کی کوشش کر سکتی ہیں، مگر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے پاکستان کی راہ صرف اسی وقت ہموار ہو سکتی ہے جب فلسطین کو بطور آزاد ریاست تسلیم کیا جائے اور مشرقِ وسطیٰ میں ایک دیرپا اور منصفانہ امن قائم ہو۔ بصورت دیگر، پاکستان کو اس معاملے میں سخت مزاحمت اور اندرونی عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔

 

ٹیگس